پاکستان میں سود۔| پاکستان میں سودی نظام اور سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ

پاکستان میں سود 

پاکستان میں سودی نظام اور سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ


بیس (20) سال پہلے آج ہی کے دن سپریم کورٹ آف پاکستان نے سود کے خاتمے سے متعلق وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو منسوخ قرار دے دیا ۔

چوبیس (24) جون 2002ء کے دن کو پاکستانی تاریخ کا سیاہ ترین دن کہا جا سکتا ہے۔ اِس دن سپریم کورٹ آف پاکستان نے سود کے خاتمے سے متعلق وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو منسوخ قرار دیا۔

 اِس افسوس ناک اور شرم ناک فیصلے نے نہ صرف یہ کہ پاکستان کی معیشت کو اسلامی اصلاحات سے مزین کرنے کے عمل کا رستہ روکا بلکہ اِس کی وجہ سے اُس 32 سالہ جدوجہد کا خاتمہ کر دیا گیا جو پاکستان میں سود کے خاتمے سے متعلق کی جا رہی تھی۔ ویسے تو اِن کوششوں کا سلسلہ پاکستان بننے کے بعد ہی شروع ہو گیا تھا۔ 

قرآن کریم میں سود کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ۔۔


آئیے پاکستان میں سرکاری سطح پر سود کے خاتمے کے حوالے سے کی گئی کوششوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں:


1969ء


اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی جانب سے ایک انکوائری کے بعد ڈھاکہ میں دسمبر 1969ء میں اسلامی مشاورتی کونسل کا اجلاس ہوا۔ جس میں قرضوں پر اضافی وصولی، سیونگ سرٹیفیکیٹس، پرائز بونڈز اور پوسٹل لائف انشورنس کو سود کی مختلف شکلیں قرار دیتے ہوئے سود سے پاک معیشت کے قیام کی خاطر ایک کمیٹی تشکیل دینے کی سفارش کی گئی۔


1973ء


پاکستان کے نئے آئین کے آرٹیکل 38 کے مطابق حکومت کو پابند کیا گیا کہ جتنی جلدی ممکن ہو ملک سے سود کا خاتمہ کیا جائے۔


1977ء


29 ستمبر 1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے اسلامی نظریاتی کونسل بنائی تاکہ وہ سود سے پاک معیشت کے لیے لائحہ عمل تیار کریں۔ کونسل میں ممتاز بینکار اور ماہرین اقتصادیات شامل تھے جنھوں نے انتھک محنت اور تحقیق کے بعد اپنی تجاویز پیش کیں۔


1980ء


جنرل ضیاءالحق کے کہنے پر 25 جون 1980ء کو اسلامی نظریاتی کونسل نے ایک اور نظر ثانی شدہ رپورٹ پیش کی۔ جسے ڈاکٹر اسرار احمد کی خواہش پر عوام کے سامنے بھی لایا گیا۔ اِس رپورٹ کا ایک خلاصہ صدیقی ٹرسٹ کراچی نے شائع بھی کیا تھا۔


1981ء


ایک وفاقی شرعی عدالت قائم کی گئی۔ لیکن مالی معاملات اِن کے دائرہ کار سے باہر رکھ کر اِن کے ہاتھ پاؤں باندھے گئے تھے۔ سود کے متبادل کے طور پر پی ایل ایس اور مارک اپ کے طریقے رائج کیے گئے۔ جس پر علمائے کرام نے اِسے نئی بوتل میں پرانی شراب قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔


1988ء


15 جون 1988ء کو صدر ضیاء الحق نے نفاذ شریعت آرڈیننس جاری کیا۔ اور کراچی یونیورسٹی کے سابقہ وائس چانسلر ڈاکٹر احسان رشید کی سربراہی میں ایک اسلامی معیشت کمیشن تشکیل دیا۔ لیکن 2 مہینے بعد جنرل ضیاء الحق کے طیارے حادثے میں جاں بحق ہونے کے بعد بے نظیر بھٹو نے نئی حکومت قائم ہوتےہی کمیشن کو تحلیل کردیا اور نفاذ شریعت آرڈیننس کو بھی پارلیمنٹ میں منظوری کی خاطر پیش نہ ہونے دیا گیا۔


1991ء


وزیر اعظم نواز شریف کی ہدایت پر ایک کمیٹی پروفیسر خورشید احمد کی سربراہی میں قائم کی گئی۔ جس کا کام غیر ملکی قرضوں کے بوجھ سے ملک کو نکال کرخود انحصاری کی جانب گامزن کرنے کی خاطر اصلاحات کی جامع پالیسی مرتب کرنا تھا۔ یہ رپورٹ انتہائی مختصر وقت میں وزیر اعظم کو پیش کر دی گئی۔


ایک اور کمیشن اسٹیٹ بنک اف پاکستان کے تحت قائم کیا گیا۔ جس کا کام ملک کو اسلامی معیشت کی جانب گامزن کرنے کی خاطر اصلاحات سے متعلق تجاویز پیش کرنا تھا۔ لیکن 1993ء میں معین قریشی حکومت کے آتے ہی کمیشن تحلیل کر دیا گیا۔


ایک اور کمیٹی مولانا عبد الستار خان نیازی کی قیادت میں بنائی گئی جس کا کام سود سے پاک معیشت کے قیام کی خاطر ایک رپورٹ تیار کرنا تھا۔ یہ رپورٹ بھی جلد وزیر اعظم کو پیش کر دی گئی۔


14 نومبر 1991ء کو وفاقی شرعی عدالت نے سود کے کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کو چھ ماہ کا وقت دیا تاکہ ملکی معیشت کو سود سے پاک کیا جا سکے۔


وزیر اعظم نواز شریف نے اِس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ آنے والے آٹھ سال تک ایک کے بعد دوسری کسی نہ کسی وجہ کو بہانہ بناتے ہوئے اِس اپیل کی سماعت نہ ہو سکی۔ اور معاملے کو کھٹائی میں ڈالا جاتا رہا۔


1997ء


23 فروری 1997ء کو وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں ایک اور کمیٹی بنائی گئی جس کا کام خدشات و اعتراضات کو سامنے رکھ کر سود سے پاک معیشت کے قیام کے لیے سفارشات مرتب کرنا تھا۔ لیکن حسبِ روایت کوئی عملی نتائج سامنے نہ آئے۔


1999ء


شریعت ایپلیٹ بینچ سپریم کورٹ نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل پر سماعت کی اور اپیل کو خارج کرتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا اور حکومت کو ملکی معیشت کو سود سے پاک کرنے کے لیے 30 جون 2001ء تک کا وقت دیا۔


2001ء


پرویز مشرف حکومت کی جانب سے درپردہ ایک پرائیویٹ بنک یو بی ایل کے ذریعے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف ایک اور اپیل دائر کروائی گئی۔ جس کی سماعت کرتے ہوئے شریعت ایپلیٹ بینچ نے وفاقی حکومت کو مزید ایک سال کا وقت دیا کہ وہ ملک سے سود کا خاتمہ کرے۔ 


2002ء


مئی 2002ء میں ایڈوکیٹ جنرل اف پاکستان نے حکومتِ پاکستان کو تنبیہ کی کہ ایسے علمائے کرام سے ہرگز مشاورت نہ کی جائے جو بنکوں کے سود کو حرام قرار دیتے ہیں۔


24 جون 2002ء کو ایپلیٹ بینچ کے ججوں کو حکومت کی جانب سے تبدیل کیا جا چکا تھا۔ شامل کردہ نئے جج صاحبان نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو منسوخ کرتے ہوئے حکومت کو سودی معیشت جاری رکھنے کا عندیہ دے دیا۔ یوں سود کے خاتمے کے لیے پاکستان میں کی جانے والی بتیس سالہ کوششوں کا خاتمہ کر دیا گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

Comments

Popular posts from this blog

قرآن اور سائنس| چیونٹیوں کے بارے میں دلچسپ حقائق

FIFa World Cup Qatar 2022 Final